سائنس اور شاعری
کل شام میں مشہورِ زمانہ”طبیعیات پر فائنمن کے لیکچرز“ کے آنلائن ایڈیشن کا سرسری سا جائزہ لے رہا تھا جب ایک حاشیے پر نظر پڑی:
”ستارے اور زمین ایک ہی جیسے جواہر سے مل کر بنے ہیں۔“ لیکچرز دینے کے لیے میں عموماً اسی قسم کے ایک چھوٹے سے موضوع کا انتخاب کرتا ہوں۔ شاعر حضرات کہتے ہیں کہ سائنس ستاروں سے ان کی خوبصورتی چِھین کر انہیں محض گیس کے گولے قرار دیتی ہے۔ کوئی بھی چیز ”محض“ نہیں ہوتی۔ صحرانی رات میں ستارے مجھے بھی نظر آتے ہیں، اور میں انہیں محسوس بھی کرتا ہوں۔ لیکن کیا مجھے کم یا زیادہ نظر آتا ہے؟ آسمانوں کی وسعت میرے تخیل کو جِلا بخشتی ہے—زمین پر رہتے ہوئے میری چھوٹی سی آنکھ ستاروں کی دس لاکھ سال پرانی روشنی کو دیکھ سکتی ہے، ایک ایسے وسیع نقش کو، جس کا میں ایک حصہ ہوں۔ ممکن ہے کہ میرے وجود کے اجزاء بھی کسی گمشدہ ستارے سے پُھوٹے ہوں، بالکل ایسے ہی جیسے وہاں ایک اور ستارہ اپنے اجزاء کو خارج کر رہا ہے۔ یا جیسے میں ان ستاروں کو پالومار کی عظیم آنکھ سے دیکھتا ہوں، کسی ایسے نقطۂ آغاز سے دور بھاگتے ہوئے جہاں شاید وہ کبھی باہم موجود تھے۔ آخر اس سب کا سلسلہ کیا ہے، اس کے معانی کیا ہیں، اس کی وجہ کیا ہے۔ کسی پراسرار معمے کے بارے میں کچھ جان لینے سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا، کہ حقیقت ماضی کے تمام فنکاروں کی سوچ سے بھی کہیں زیادہ شاندار ہوتی ہے! آج کے شعراء اس حقیقت کے بارے میں کچھ کہتے کیوں نہیں؟ یہ کیسے شعراء ہیں جو مشتری کو انسان کے روپ میں تو پیش کر سکتے ہیں، لیکن اگر وہ خلاء میں گھومتا ہوا میتھین اور ایمونیا کا عظیم کرہ ہو تو خاموش رہتے ہیں؟
میں اس قابل تو نہیں ہوں کہ سائنس یا شاعری پر کوئی تبصرہ کر سکوں، لیکن رچرڈ فائنمن کے درج بالا الفاظ پڑھنے کے بعد میں ان کا پکا پکا مرید بن چکا ہوں۔ امید ہے کہ ۲۰۱۴ میں بالآخر فائنمن کی کچھ کتابوں کا مطالعہ ممکن ہو سکے گا۔