سلائی مشین کا پرانا کِتابچہ
یہ تحریر ۱۷ ستمبر، ۲۰۲۲ کو ٹوئٹر پر لڑی کی صورت میں شائع ہوئی تھی۔ یہاں ترجمہ کرتے ہوئے میں نے چند تبدیلیاں کی ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ابّو کے کتبخانے کی صفائی کرتے ہوئے مجھے سِنگر سلائی مشین (ماڈل ۱۰۹ ایچ) کا خستہحال کِتابچہ ملا (یہ سلائی مشین ۸۰ کی دہائی کے اواخر میں امّی کے پاس ہوا کرتی تھی):

کِتابچے کا سرورق
مجھے یہ سلائی مشین کچھ خاص یاد تو نہیں، اور یہ بھی یاد نہیں پڑتا کہ اِس کِتابچے کو پہلے کبھی دیکھا ہو، لیکن اُس دن سے آج تک اِس کِتابچے نے مجھے مسحور کر رکھا ہے، اور میں اکثر اِس کی ورق گردانی کرتا ہوں۔
آئیے میں آپ کو اِس کی وجہ بتاؤں۔
کِتابچے پر تاریخِ اشاعت درج نہیں ہے، لیکن غالباً اسے ۸۰ کی دہائی میں ہی تیار کیا گیا ہو گا۔ آخر میں ایک جگہ لکھا ہے کہ اِسے ”لیتھوکرافٹ کارپوریشن، کراچی“ نے شائع کیا تھا:

اِس سادہ سے پرانے فونٹ کو دیکھے بھی عرصہ ہو گیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی میں اشاعت والی یہ سطر واحد چیز ہے جو ہاتھ سے نہیں لکھی گئی۔ کِتابچے کا باقی تمام متن دہلوی نستعلیق میں ہاتھ سے لکھا گیا ہے، اور کہیں کہیں (سرخیوں کے لیے یا زور دینے کے لیے) ہندوستانی نسخ کا ایک سادہ سا انداز استعمال ہوا ہے:


لیکن اس کِتابچے کا ہاتھ سے لکھا جانا کچھ ایسی غیرمتوقع بات نہیں کہ ۸۰ کی دہائی میں کتابت عموماً ہاتھ سے ہی کی جاتی تھی۔ البتہ اِس کے ڈیزائن کی کچھ دیگر باتیں ہیں جو میری نظر میں اِسے ممتاز بناتی ہیں…
سب سے پہلی بات تو رنگوں کا غیرمعمولی اور چُست استعمال ہے، جو آج کل پاکستانی کِتابچوں یا ہدایتناموں میں شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر، ذرا اِس اسپریڈ کو ملاحظہ فرمائیے:

میں اِسی اسپریڈ کی وجہ سے کِتابچے پر لٹّو ہوا تھا۔
کِتابچے کی اکثر تصویریں سلائی مشین کے مختلف حصوں کو نمایاں کرنے کے لیے بھی رنگوں کا بہترین استعمال کرتی ہیں۔ چند مثالیں:



اگلی چیز: اردو ہندسے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ ہندسے آج کل کے اردو میڈیا سے بتدریج غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ مجھے یہ ہندسے بہت اچھے لگتے ہیں، لیکن خود میں بھی ان کے استعمال میں کبھی کبھار غفلت برت جاتا ہوں۔

اکثر اردو کتابوں کے آخر میں اشاریہ موجود نہیں ہوتا (میری رائے میں تو ہونا چاہیے)، لیکن اِس چھوٹے سے کِتابچے کے آخر میں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اشاریے میں موجود موضوعات حروفِ تہجی کی ترتیب میں نہیں ہیں، اور اُس کا عنوان بھی ”فہرست“ ہے۔ عموماً ”فہرست“ کا لفظ کتاب کے آغاز میں عنوانات کے جدوَل کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور اُسے اِس کِتابچے میں ”مندرجات“ کہا گیا ہے۔

کِتابچے کا اشاریہ

عنوانات کا جدوَل
ذیل کے صفحے میں تو تقریباً سب کچھ ہے: جدوَل کا عمدہ اور صاف لےآؤٹ؛ متن کی ترتیب ظاہر کرنے کے لیے نسخ؛ رنگوں کا خوبصورت استعمال؛ اور اردو ہندسے:

ایک دو تصاویر کو دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ کِتابچے کی تصویریں (اور شاید رنگ اور لےآؤٹ بھی) انگریزی یا کسی دوسری مغربی زبان کے کِتابچے سے مستعار لی گئی ہیں (کوشش کے باوجود مجھے اِس سلائی مشین کا انگریزی کِتابچہ ابّو کے کتبخانے میں یا انٹرنیٹ پر نہیں مل سکا):


بہرحال، اگر ایسا ہے تو تب بھی سِنگر مبارکباد کی مستحق ہے کہ انھوں نے اپنے کِتابچے میں محض مکھی پر مکھی نہیں ماری، بلکہ اُس کے مندرجات کو پاکستانی صارفین کے مزاج کے مطابق ڈھال کر پیش کیا۔ (افسوس تو یہی ہے کہ آج کل کِتابچوں کے معاملے میں مکھی پر مکھی مارنا ہی اکثر کمپنیوں کا دستور ہے۔)
اگر آپ اس کِتابچے کے ذریعے ماضی کی یادوں کو تازہ کرنا چاہیں، 🙂 تو میں نے اِسے انٹرنیٹ آرکائیو پر اَپلوڈ کر دیا ہے۔